رات کی تاریکی میں دُور سے نظر آنے والا چراغ روشنی تو نہیں دے سکتا ‘ لیکن ایسی کیفیات مُرتّب کرتا ہے کہ مسافر مایوسی سے نکل کر اُمّیدتک آپہنچتا ہے …اور اُمّید سے یقین کی منزل دو قدم پر ہے۔صاحب ِخیال کے پاس خیال بے آواز و بے الفاظ آتا ہے لیکن خیال کا اِظہار محتاجِ الفاظ ہے۔ اکثر اوقات الفاظ خیال کا حجاب بن جاتے ہیں۔ اِس لیے اِستدعا ہے کہ قاری کی نگاہ اُس خیال پر بھی رہے جو الفاظ میں موجود ہے اور اُس خیال پر بھی جس کا الفاظ کے دامن میں سِمٹنا محال تھا!یہی اس کتاب کا مرکزی نکتہ ہے
No comments:
Post a Comment